نیب کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں دو اپیلیں دائر کی گئی ہیں، ایک اپیل کا تعلق احتساب عدالت کی جانب سے فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کی بریت اور دوسری العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم کی سزا میں اضافے کے لیے ہے۔
نیب نے احتساب عدالت کے 24 دسمبر کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کی کرپشن کے ٹھوس ثبوت پیش کیے اس لیے انہیں بری کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔
نیب نے مؤقف اختیار کیا کہ محض شک کا فائدہ دے کر نواز شریف کو بری کرنا خلاف قانون ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ نواز شریف کے خلاف شواہد پر سزا سنائے۔
نیب نے اپنی دوسری اپیل میں مؤقف اختیار کیا کہ العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کے خلاف مقدمہ ثابت کیا، احتساب عدالت سے نواز شریف کو ملنے والی 7 سال قید کی سزا کم ہے، اسے بڑھایا جائے۔
نیب کا مؤقف ہے کہ نواز شریف پر جرم ثابت ہوچکا ہے اس لیے نیب آرڈیننس میں دفعہ 9 اے 5 میں زیادہ سے زیادہ سزا 14 سال قید ہے۔
یاد رہے کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے 24 دسمبر کو نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید و جرمانے کی سزا سنائی جب کہ فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کردیا گیا تھا۔
سابق وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے گزشتہ روز العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی جس میں احتساب عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی اور مؤقف اپنایا کہ احتساب عدالت کا فیصلہ خلاف قانون ہے جس میں کئی قانونی سقم موجود ہیں۔
from پاکستان
http://bit.ly/2VoGvD6
0 Comments