اس حوالے سے ناسا کو یکم جنوری کی صبح اہم ترین سنگل مل گیا جس سے تصدیق ہوئی کہ یہ خلائی مشن اس ننھی برفانی چٹان کے پاس پہنچ گیا ہے جو کہ ہمارے نظام شمسی میں سب سے دور واقع سیارچہ ہے۔
اس طرح نیو ہورائزن نے ایک بار پھر تارٰیخ رقم کردی ہے جس نے اس سے پہلے پلوٹو کی واضح تصاویر پہلی بار زمین تک پہنچائیں تھیں۔
الٹیما ٹولی نامی سیارچہ زمین سے 4 ارب میل دور موجود ہے اور نیوہورائزن اس کے پاس سے گزر گیا ہے، اس طرح یہ وہ انسانوں کا تیار کردہ وہ مشن بن گیا ہے جو اتنی دور تک پہنچنے میں کامیاب رہا۔
نیو ہورائزن مشن کی مشن آپریشنز منیجر ایلس بومین نے اس سنگ میل کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا 'ہم نے اپنی سب سے دور دراز پرواز میں کامیابی حاصل کرلی ہے'۔
نیوہورائزن مشن کا آغاز 2006 میں ہوا تھا اور 2015 میں اس نے پلوٹو تک رسائی حاصل کی تھی۔
اس وقت سے نیو ہورائزن نظام شمسی کی سرحد کی جانب بڑھتا رہا جہاں اب اس کی ملاقات اس سیارچے الٹیما ٹولی سے ہوئی۔
اس سیارے کے بارے میں یہ خلائی مشن جس حد تک ہوسکے گا معلومات بھی جمع کرے گا، جیسے تصاویر، اس کی سطح کے نقشے اور ارگرد کا درجہ حرارت وغیرہ۔
اس ڈیٹا سے سائنسدانوں کو اس پراسرار چٹان کے بارے میں جاننے میں مدد ملے گی کیونکہ اس طرح کے خلائی جسم کے بارے میں اب تک انسانوں کو اتنی قریب سے جانچنے کا موقع کبھی نہیں ملا۔
الٹیما ٹولی نظامِ شمسی کے اس حصے میں ہے جسے کائپر کی پٹی کہا جاتا ہے۔ اس دور افتادہ پٹی میں الٹیما کی طرح کے لاکھوں اجسام موجود ہیں۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ان اجسام کے اندر 4.6 ارب سال قبل نظامِ شمسی کی تشکیل کے راز پوشیدہ ہیں۔
سائنسدانوں کو تین دہائیوں قبل کائپر پٹی کے بارے میں علم ہوا تھا اور جب سے اس کے مکمل نقشے بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
نیوہورائزن اس سیارچے سے 2200 میل کے فاصلے سے گزرے گا۔
from ٹیکنالوجی http://bit.ly/2RoqspP
http://bit.ly/2F0ahbF
0 Comments