بے روزگاری میں کمی دیگر صوبوں کے مقابلے میں صوبہ پنجاب میں زیادہ سست ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ خیبرپختونخوا میں بے روزگاری میں کمی کی رفتار دیگر صوبوں کے مقابلے میں تیز رہی، مجموعی طور پر مردوں کے مقابلے میں خواتین میں بے روزگاری کی شرح زیادہ ہے، مذکورہ اعداد و شمار وفاقی محکمہ شماریات بیورو آف اسٹیٹسٹکس کے 10 سالہ تقابلی جائزہ رپورٹ میں دیے گئے ہیں جس میں سال 2003-4 سے 2014-15 تک 10 سال کے عرصے میں بے روزگاری کی صورت حال سے متعلق سالانہ اعداد و شمار دیے گئے ہیں۔
مذکورہ رپورٹ کے مطابق سال 2014-15 کے اختتام تک صوبہ پنجاب میں بے روزگاری کا تناسب 6.3 فیصد، سندھ میں 4.6 فیصد، خیبرپختونخوا میں 7.7 فیصد اور بلوچستان میں 3.9 فیصد رہا۔ رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر مذکورہ 10 سال میں بے روزگاری کے تناسب میں سست رفتاری سے کمی واقع ہوئی، سال 2014-15 میں بے روزگاری 5.9 فیصد تھی جس کا تناسب سال 2003-4 میں 7.7 فیصد تھا ۔ 2003-4 میں پنجاب میں بے روزگاری کا تناسب 7.4 فیصد، سندھ میں6فیصد، بلوچستان میں8.2فیصد اور خیبرپختونخوا میں 12.9 فیصد تھا، خیبر پختونخوا میں سال 2003-4 میں دیگرصوبوںکے مقابلے میں سب سے زیادہ بے روزگاری تھی۔
تاہم مذکورہ 10 سال کے عرصے میں وہاں بے روزگاری میں تیزی سے کمی واقع ہوئی، سال 2014-15 میں خیبرپختونخوا میں یہ تناسب 12.9 فیصد سے کم ہوکر 7.7 فیصد تک آگیا۔ محکمہ شماریات نے مذکورہ 10 سال کے دوران خواتین میں بے روزگاری کے حوالے سے بھی اعداد و شمار دیے ہیں جو بے روزگار مردوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں، اعداد و شمار کے مطابق صوبہ پنجاب میں خواتین کے روزگار کے حوالے سے بھی دیگر صوبوں کے مقابلے میں کم بہتری نظر آئی، رپورٹ کے مطابق 2003 میں صوبہ خیبر پختونخوا میں خواتین میں بے روزگاری کا تناسب29.4، بلوچستان میں27.7 فیصد اور سندھ میں19.6فیصد تھا، 10 سال کے عرصے میں خیبر پختونخوا میں یہ تناسب کم ہوکر 15.8 فیصد تک آگیا۔
بلوچستان میں8.5 فیصد اور سندھ میں 10.9 فیصد تک آگیا۔ رپورٹ کے مطابق 2003-4 میں صوبہ پنجاب میں بے روزگار خواتین کا تناسب9.6 فیصد تھا جو10 سال کے عرصے میں معمولی کمی کے بعد سال 2014-15 میں 7.8 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔خواتین کے روزگار کے حوالے سے مجموعی طور پر ملک میں اچھی صورتحال نہیں رہی، مذکورہ عرصے کے دوران خواتین کی بے روزگاری میں انتہائی سست رفتاری سے کمی واقع ہوئی، محکمہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق 2003-4 میں بے روزگار خواتین کا تناسب 12.8 فیصد تھا جو 10 سال بعد محض 9 فیصد تک پہنچا۔
ماہر معاشیات قیصر بنگالی نے ملک میں بے روزگاری کی صورت حال کو بدترین قرار دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی محکمہ شماریات کے اعداد و شمار بے روزگاری کی صورت حال کی صحیح عکاسی نہیں کر تے، مذکورہ اعداد و شمار فرضی ہیں۔ ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں بے روزگاری کو ریکارڈ کرنے کے لیے صحیح نظام موجود نہیں ہے، امریکا میں ایک شخص کا بے روزگار ہونا بھی فوری طور پر ریکارڈ پر آجاتا ہے، وہاں جب کوئی شخص ایک ماہ بھی بغیر تنخواہ کے رہتا ہے تو وہ فوری طور پر حکومت سے رجوع کرتا ہے کیونکہ حکومت اسے بے روزگاری الاؤنس فراہم کرتی ہے، اس لیے وہ فوری طور پر ریکارڈ پر آجاتا ہے۔
قیصر بنگالی کا کہنا تھاکہ ہمارے ملک میں بے روزگاری کا یہ عالم ہے کہ کسی ایک اسامی کے لیے اشتہار دیا جائے تو سیکڑوں بے روزگار افراد کی درخواستیں وصول ہوتی ہیں، ہمارے ملک میں بے روزگاروں کی2 اقسام ہیں، ایک وہ غریب اور متوسط طبقے سے وابستہ بے روزگار افراد ہیں جو ملازمت نہ ہونے کی صورت میں کچھ نہ کچھ چھوٹا موٹا کام کرلیتے ہیں ایسے افراد ٹھیلہ تک لگالیتے ہیں، بے روزگاروں کی دوسری قسم وہ ہے جو کوئی بھی کام یا ملازمت نہ ملنے پر اپنے والدین کی دکان یا اس طرح کے کسی روزگار پر بیٹھ جاتے ہیں اور ان کا ہاتھ بٹاتے ہیں، اور ایسا دھندہ 2 یا3 افرادکرنے لگتے ہیں جوایک آدمی کرتا تھا، اس سے ان کی آمدنی میںکوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ قیصر بنگالی کا کہنا تھاکہ ہمارے ملک میں 50 فیصد بے روزگاروں کا تعلق مذکورہ دوسری قسم سے ہے جو اپنے والدین کے روزگار پر بیٹھ جاتے ہیں۔
from پاکستان
http://bit.ly/2EUFRYZ
0 Comments