کامسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد کے لاہور کیمپس میں واقع بین الموضوعاتی تحقیقی مرکز برائے حیاتیاتی و طبی مٹیریل ( آئی آر سی بی ایم) نے برطانیہ کی شیفلڈ یونیورسٹی کے تعاون سے اس نئی ٹیکنالوجی کی چوہوں پر کامیاب آزمائش کی ہے اور اس کے نتائج میں ایک اہم طبی تحقیقی جریدے میں شائع کئے ہیں۔
محققین نے پہلے دنیا بھر میں ذیابیطس کے زخموں پر عام استعمال کی جانے والی ایلجینیٹ ڈریسنگ استعمال کی۔ اس کے بعد ماہرین نے ٹو ڈی آکسی رائبوس (ٹو ڈی ڈی آر) کو اس پٹی کے پھائے پر لگایا۔ واضح رہے کہ ٹو ڈی ڈی آر ایک قسم کی شکر ہے جو زخم بھرنے کی اہلیت رکھتی ہے اور تجربات سے اس کی تصدیق بھی ہوئی ہے۔ ماہرین نے پہلے چوہوں کو شوگر کا مریض بنایا اور اس کے بعد ان میں گہرائی تک زخم لگائے۔
اگلے مرحلے میں ٹوڈی ڈی آر والی ایلجینیٹ پٹی ان کے زخمو پر لگائی گئی۔ اس عمل سے ذیابطیس کے ناسور نہ صرف تیزی سے بھرے بلکہ ان میں خون کی نئی نالیاں بھی بننے لگیں جو زخم مندمل کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ رگوں کے دوبارہ بننے کا یہ عمل طبی زبان میں ’اینجیوجنیسِس‘ کہلاتا ہے۔
ماہرین نے اپنی ایجاد کی آزمائش کے لیے ذیابیطس کے مریض چوہوں کے جسم پر 20 ملی میٹر کے زخم لگائے۔ اس کےبعد ان زخموں پر تین اقسام کی پٹیاں لگائی گئیں۔ ایک چوہے کے زخم پر صرف روایتی ایلجنیٹ پٹی باندھی گئی، دوسرے پر 5 فیصد ٹوڈی ڈی آر اور تیسرے پر 10 فیصد ٹو ڈی ڈی آر والے پھائے رکھے گئے۔
اب احتیاط سے ان زخموں کا روزانہ کی بنیاد پر جائزہ لیا گیا اورمرہم پٹی کے پہلے، چوتھے، ساتویں، گیارہوں، چودھویں اور بیسویں روز زخم کی تصاویر لی گئیں۔ تصاویر کا جائزہ لینے کے بعد ماہرین نے ایک اہم بات دریافت کی۔
اپنی تحقیق کے دوران ماہرین نے درست ہوتے ہوئے زخموں کی جلد سے بافتوں (ٹشوز) کے بعض ٹکڑے لیے ان پر ایک خاص قسم کی ڈائی ڈالی اوراس کی روشنی میں دیکھا گیا تو ان پر حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ زخموں میں خون کی نئی شریانیں بنیں جس کی بدولت زخم تیزی سے مندمل ہونے لگے۔
اس طرح یہ ٹیکنالوجی ذیابیطس کے مریضوں کے زخم کو نہ صرف تیزی سے مندمل کرسکتی ہے بلکہ نئی جلد بناتی ہیں جو اس ٹیکنالوجی کی ایک اہم کامیابی بھی ہے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس طرح ہزاروں مریضوں کے اعضا کٹنے سے بچائے جاسکتے ہیں۔ لیکن اس ٹیکنالوجی کی انسانوں پر آزمائش ضروری ہے۔
’ ہم نے درست ہوتے ہوئے زخموں کو بغور دیکھا تو معلوم ہوا کہ اس میں نئی جلد پروان چڑھ رہی ہے،‘ آئی آر سی بی ایم سے وابستہ معاون پروفیسر ڈاکٹر محمد یار نے بتایا جو کامسیٹس یونیورسٹی کے لاہور کیمپس میں ٹشو انجینیئرنگ کے کلسٹر ہیڈ بھی ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ نئی تکینک سے تیار شدہ ڈریسنگ کمرے کے درجہ حرارت پر طویل عرصے تک کارآمد رکھی جاسکتی ہے یعنی اسے ایک مقام سے دوسری جگہ بھیجنے کے لیے خصوصی انتظامات کی ضرورت نہیں رہتی۔
اس تحقیق کے لیے آسٹریلیا کی بایوٹیک کمپنی کینینٹا نے کی ہے جس کی تفصیلات ’جرنل آف بایومٹیریلز ایپلی کیشنز‘ میں شائع ہوئی ہے۔
ڈاکٹر محمد یار نے مزید بتایا کہ شکر والی ڈریسنگ کے ضمن میں پاکستان، برطانیہ اور عالمی سطح پر تین پیٹنٹ (حقِ ملکیت) کی درخواست دائر کی جاچکی ہیں اور جلد ہی انسانی آزمائش شروع کی جائے گی۔
’ امید ہے کہ اس سال کے اختتام تک انسانوں پر اسے آزمایا جائے گا اور کینینٹا کمپنی اسے پوری دنیا میں فروخت کرے گی۔ تاہم ایک اور پاکستانی کمپنی کو اس کی تیاری کا لائسینس دیا گیا ہے تاکہ ترقی پذیر ممالک کے لیے نسبتاً کم خرچ ڈریسنگ تیار کی جاسکیں۔‘ ڈاکٹر محمد یار نے بتایا۔
from صحت https://ift.tt/2KY6lJI
https://ift.tt/2MmaYRf
0 Comments