چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے لاہور میں سروسز انسٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے چوتھے کانووکیشن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دوران ملازمت اپنے فرائض ایمانداری سے ادا کئے، صبح ساڑھے 9 سے رات 12 بجے تک عدالت میں موجود رہا، قوم کی خدمت کیلیے 3 گھنٹے سے زیادہ نہیں سوتا، عوام کے مسائل کے حل کیلئے جدوجہد کررہا ہوں، چیف جسٹس بننے کے بعد میرا جو امتحان شروع ہوا اس میں کسی حد تک کامیاب ہوگیا ہوں، عہدہ سنبھالنے پر میں نے جو وعدہ کیے تھے انہیں پورا کرنے کی کوشش کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عوام کے بنیادی حقوق کی حفاظت کے دوران اختیارات سے تجاوز نہیں کیا، سندھ اور پنجاب میں صحت کے شعبوں میں بہتری آئی ہے، لیکن خیبرپختون خوا کے ہیلتھ سسٹم میں وہ بہتری نہیں لاسکا جو لانا چاہتا تھا، اسپتال چلانا میرا کام نہیں ہے اور میں نے کسی اسپتال کی انتظامی معاملات میں مداخلت بھی نہیں کی، لیکن جہاں غلطیاں تھیں ان کی اصلاح کرنا اور عوام کے بنیادی حقوق کی حفاظت کرنا میرا عدالتی فرض تھا، کیا صاف پانی کے مسئلے پر ازخود نوٹس لینا میرے دائرہ اختیار میں نہیں آتا؟، کیا پانی کی قلت کے معاملے پر بات کرنا غلط ہے؟، پنجاب کے اسپتالوں میں وینٹی لیٹر کا مسئلہ دیکھنا کیا حدود سے تجاوز ہے؟، عدلیہ نے کسی ادارے کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کی، غلطیوں کی اصلاح ضرور کی۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے مزید کہا کہ صحت کے شعبے کا جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ نجی میڈیکل کالجز میں ڈاکٹرز کی بجائے نیم حکیم پیدا کیے جارہے ہیں، نجی اسپتال تعلیم گاہیں نہیں بلکہ کاروباری مراکز بن گئے ہیں، عدلیہ نے کسی اسپتال کی مینجمنٹ میں مداخلت نہیں کی لیکن جہاں غلطیاں تھیں انہیں ٹھیک کرنے کے اقدامات کیے۔
from پاکستان
http://bit.ly/2VfynFa
0 Comments