قومی اسمبلی میں بجٹ پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے قائدحزب اختلاف خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ حکومت نے 184 ارب کی ٹیکس چھوٹ دیکر 400ارب کا نیا ٹیکس لگا دیا، ہمارے دور میں پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس لیوی لگا تو اسے جگا ٹیکس کہا گیا جب کہ اس دور میں تیل 120 ڈالر فی بیرل تھا اور اب تیل اوسطاً 35 یا 40 ڈالر فی بیرل ہے تو پھر بھی پٹرولیم مصنوعات پر سپر جگا ٹیکس لگا دیا۔ پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس لیوی لگا کر عوام پر عذاب ڈال دیا گیا۔ سیمنٹ کی فی بوری 15 روپے بڑھا دی گئی عوام کو پتہ نہیں چلا۔
اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ کہ ایسا اچھا بجٹ پیش کیا گیا کہ عوام اب کھانا نہیں کھاتے ان کا پیٹ بھر گیا، ٹیکس نیٹ بڑھانے کی بجائے ٹیکس لگائے جارہے ہیں، زراعت کے شعبے میں دی گئی سبسڈی ختم کردی گئی، امیروں کی بجائے حکومت نے موٹرسائیکل والوں پر ٹیکس لگا دئیے، حکومت عوام کو مہنگائی کی چکی میں پیس رہی ہے اور پارلیمنٹ سے متعلق عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں 5 فیصد پاکستان میں اعشاریہ 35 فیصد ٹیکس پیئرز جب کہ 17 کروڑ آبادی والے بنگلہ دیش کے 25 لاکھ ٹیکس پیئرز ہیں۔ اس وقت زر مبادلہ کے ذخائر صرف 17 ارب ڈالر ہیں، 2015 میں دو ارب ڈالر ملک سے باہر گئے کس کا مطلب لوگوں کا ملک میں سرمایہ کاری پر اعتماد نہیں رہا۔
خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ ملکی معیشت کیلئے مل بیٹھنے کی ضرورت ہے، متحد ہوکر ملک کے مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے، کچھ لوگ سیاست کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں، اب بیوی اور بچے بھی کہتے ہیں کہ سیاست گندا کام ہے چھوڑ دیں، لیکن اس کے برعکس سیاست گندی نہیں بلکہ سیاست دان اسے گندا کرتے ہیں، ہمارا برداشت کا مادہ ختم ہوچکاہے،ہماری سوچ اناپرستی میں تبدیل ہوچکی ہے اب الیکشن میں ایسے الزام ایک دوسرے کو دیں گے کہ اللہ کی پناہ، گالم گلوچ اورخواتین کی تضحیک کی سوچ تبدیل کرنا ہو گی، جب تک پارلیمنٹ ذاتیات سے بالا ترہو کر بات نہیں کرے گی ملک ترقی نہیں کرے گا۔
from پاکستان
https://ift.tt/2rfoVUK
0 Comments