تفصیلات کے مطابق جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے لیگی رہنما طلال چوہدری کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی، ملزم کے وکیل کامران مرتضیٰ نے موقف اپنایا کہ انہوں نے اس نقطے کا فیصلہ کرنا ہے کہ ملزم کا بیان حلف پر کروانا ہے یا نہیں، اس لیے عدالت سے استدعا ہے کہ سماعت پیر تک ملتوی کی جائے۔
جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ حلف پر بیان نہ دینے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا، تاہم عدالت نے طلال چوہدری کے وکیل کی سماعت ملتوی کرنے کی استدعا منظور کرتے ہوئے توہین عدالت کیس پیر تک ملتوی کردیا ہے۔سماعت کے بعد میڈیاسے گفتگو کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کہا ہے کہ اب پاکستان میں فرشتے اور خفیہ ہاتھ حکومتیں نہیں بنوائیں گے ،(ن) لیگ عوام کی عدالت سے اتنے ووٹ لے گی کہ جن فیصلوں پر تحفظات ہیں انہیں تبدیل کیا جا سکے ۔
وزیر مملکت برائے داخلہ نے کہا ہم حکومت بنانے کے لیے ووٹ نہیں مانگ رہے بلکہ نواز شریف کو واپس لانے کے لیے ووٹ مانگ رہے ہیں ۔پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین پر تنقید کرتے ہوئے طلال چوہدری نے کہا کہ زرداری کے منہ میں چوسنی ڈالی ہوئی ہے کہ نیب ریفرنس اور کرپشن کے کیسز واپس ہو جائیں گے ،مگر قوم جانتی ہے کس نے حاجیوں کی جیبیں کاٹیں ۔ان کا کہنا تھا کہ عمران خان خواتین کو عزت دینے کی بات کرتے ہیں،پہلے وہ اپنی بیٹی کو اپنا نام دیں۔
اس سے قبل تیس اپریل کو ہونے والی سماعت کو بغیر کارروائی کے معطل کردیا گیا تھا جبکہ چھ اپریل کو ہونے والی سماعت کے موقع پر عدالت عظمیٰ نے آئندہ پیشی پر طلال چوہدری کا بیان ریکارڈ کرنے کا حکم دیا تھا، توقع ہے کہ آج طلال چوہدری کا بیان ریکارڈ کیا جائے گا۔
چھ اپریل کو ہونے والی سماعت میں استغاثہ کے گواہ ڈی جی مانیٹرنگ پیمرا حاجی آدم عدالت میں پیش ہوئے ، جس پرطلال چوہدری کے وکیل کامران مرتضیٰ نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ گواہ سے متعلق معلومات حاصل نہیں کی گئی۔
پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ گواہ حاجی آدم ڈی جی پیمرا ہیں اور ان کا کام چینلز کی مانیٹرنگ کرنا ہے۔ طلال چوہدری کے وکیل کامران مرتضیٰ نے کہا فہرست کے مطابق گواہ سے مواد مانگا نہیں گیا۔
جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ ہم گواہ کو سن لیتے ہیں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اجازت دیں توگواہ سے اردو میں سوال کرنا چاہتا ہوں، آپ کا گواہ ہے سوال اردو میں کریں یا پنجابی میں، اگرگواہ سرائیکی ہے توہم سرائیکی بھی سننا چاہیں گے۔طلال چوہدری کے وکیل نے اعتراض کیا کہ گواہ سے کچھ طلب ہی نہیں کیا تھا جس پرایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ گواہ طلال چوہدری کی تقاریرکی سی ڈی پیش کریں گے، میرا گواہ پیمراکا ڈائریکٹرمانیٹرنگ ہے۔
کامران مرتضیٰ نے سوال کیا کہ آپ کے فرائض کیا ہیں؟ جس پر گواہ حاجی آدم نے جواب دیا کہ میں ابھی ڈی جی آپریشن ہوں پہلے ڈی جی مانیٹرنگ پیمرا تھا، میراکام 217 چینلزکومانیٹرکرنا تھا۔گواہ نے عدالت کو بتایا کہ اے جی آفس سے 24 اور27 جنوری کی تقریرکا خط موصول ہوا، خط میں لکھا تھا جو ٹرانسکرپٹ آپ کوبھیجی ہے ان کے کلپس دیں، میں نے وہ ایڈ یشنل اٹارنی جنرل کوکلپس فراہم کئے۔استغاثہ کے وکیل نے کہا کہ دونوں کلپس عدالت کو دینا چاہتا ہوں جس پر طلال چوہدری نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ گواہوں کی فہرست میں ثبوت کا نہیں لکھا گیا لہذاثبوت پیش نہیں کرسکتے۔
طلال چوہدری کے وکیل کامران مرتضیٰ نے عدالت سے استدعا کی کہ اس معاملے کو درگزر کرے، توہین عدالت کے مقدمے میں دفاع کرنا اچھا نہیں لگتا۔جسٹس اعجازافضل نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے کیس لیا ہے تواسے بھرپوراندازمیں پیش کریں، اپنے فرض کی ادائیگی میں کسی قسم کی شرمندگی محسوس نہ کریں، ہمارا مقصد صرف قانون پرعملدرآمد کرنا ہے۔
کامران مرتضیٰ نے کہا کہ یہ کیس عاصمہ جہانگیرکا تھا مجھے وارثت میں ملا ہے، توہین عدالت کیس میں بطوروکیل پیش ہونا بڑا مشکل کام ہے۔جسٹس اعجازافضل نے ریمارکس دیے کہ آپ پروقارطریقے سے اپنا کیس لڑیں، ہمیں بخوبی اندازہ ہے آپ اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
بعدازاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیرمملکت برائے داخلہ طلال چوہدری کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت 30 اپریل تک ملتوی کرتے ہوئے حکم دیا کہ آئندہ سماعت پر طلال چوہدری کا بیان ریکارڈ کیا جائے۔
from پاکستان
https://ift.tt/2FGxQDf
0 Comments