تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی، جبکہخواجہ حارث نے نیب کے گواہ عمران ڈوگرپر تیسرے روز جرح مکمل کی۔
احتساب عدالت میں سماعت کے آغاز پر استغاثہ کے گواہ عمران ڈوگر نے بتایا کہ پہلے شکایت آتی ہے پھر نیب آرڈیننس 1999 کے تحت جانچ پڑتال ہوتی ہے، شکایت سیل جانچ پڑتال کرتا ہے، گواہ نے کہا کہ شکایت کی تصدیق ہو نے کے بعد انکوائری شروع ہوتی ہے، انکوائری بعد میں تفتیش میں تبدیل ہو جاتی ہے، کافی مواد ملنے کے بعد تفتیش کی جاتی ہے۔
استغاثہ کے گواہ نے عدالت کوبتایا کہ دستیاب شواہد کی روشنی میں ریفرنس فائل ہوتا ہے، ریفرنس فائل کرنے کا حکم سپریم کورٹ کا تھا،عمران ڈوگر نے کہا کہ تفتیش کرنے کی اتھارٹی دی گئی تھی، سپریم کورٹ نے شواہد کی روشنی میں ریفرنس فائل کرنے کی ہدایت کی تھی۔استغاثہ کے گواہ نے بتایا کہ مواد جےآئی ٹی نے نیب اورایف آئی اے سے اکٹھا کیا، جے آئی ٹی کے اکٹھے کیے گئے مواد پر عبوری ریفرنس فائل کیا،خواجہ حارث نے کہا کہ 18اگست 2017 کا ملزمان طلبی کا نوٹس ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے جس پر معزز جج نے کہا کہ کیا یہ اچھا نہیں وکیل صفائی خود نوٹس ریکارڈ پرلانے کا کہہ رہے ہیں، آپ کا اعتراض لکھ لیتے ہیں۔
کواہ نے عدالت کو بتایا کہ ہمارے سمن کے جواب میں ملزمان کے وکیل امجد پرویزنے خط لکھا، خط میں لکھا نیب ریفرنسز کا فیصلہ کر چکی، کارروائی آنکھ میں دھول جھونکنا ہے، عمران ڈوگر نے کہا کہ خط میں کہا سپریم کورٹ کے فیصلے پرنظر ثانی درخواست دائرکررکھی ہے۔استغاثہ کے گواہ نے بتایا کہ 28 دسمبر2017 کو ملزمان کو دوسرا طلبی کا نوٹس بھیجا، اس دوران میں نے راجہ اختر اور رابرٹ ریڈلے کا بیان قلمبند کیا، 28 دسمبر کے نوٹس میں ریڈلے، راجہ اختر کا بیان قلمبند کرنے کا ذکرنہیں ہے،گواہ نے کہا کہ سپریم کورٹ فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ریفرنس پہلے ہی فائل کیا جا چکا، 28 دسمبر کے نوٹس میں بھی نواز شریف کو نیب آفس آنے کا کہا تھا، یہ درست ہے دونوں نوٹس نوازشریف کو بطورملزم بھیجے گئے۔
عمران ڈوگر نے کہا کہ ملزم کی طلبی کے سمن اور جواب عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا دیے گئے جبکہ 28 دسمبر کو مریم نواز، کیپٹن صفدر کو بھیجے نوٹس بھی ایک جیسے تھے،انہوں نے عدالت کو بتایا کہ فیملی سیٹلمنٹ میں دس جگہیں خالی تھیں، سیٹلمنٹ میں حسین ،اسما علی،علی ڈارکے دستخط کی جگہ خالی تھی۔بعد ازاں خواجہ حارث کی نیب کے گواہ عمران ڈوگر پرجرح مکمل ہونے کے بعد احتساب عدالت نے شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی، آئندہ سماعت پرمریم نواز کے وکیل گواہ پرجرح کریں گے۔
گزشتہ سماعت میں نیب کے گواہ عمران ڈوگر پر جرح کے دوران خواجہ حارث اور نیب پراسیکیوٹر افضل قریشی کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔
خواجہ حارث نے کہا کہ سوال پوچھنا ان کا استحقاق ہے، جو سوال پوچھا جائے اسی کا جواب دیا جائے۔ نیب پراسیکیوٹر افضل قریشی نے کہا کہ خواجہ حارث گواہ کے جواب کو تبدیل کر کے نہ لکھوائیں۔ جو جواب گواہ نے دیا ہے وہی ریکارڈ کا حصہ ہوگا۔لندن فلیٹ ریفرنس کے تفتیشی افسر عمران ڈوگر نے عدالت کو بتایا کہ لندن حکام کے نام خط میں جے آئی ٹی نے لندن فلیٹس کے اصل اور بینفشل مالکان کا پوچھا تھا۔ برطانوی جواب میں نوازشریف اوران کے بچوں کا نام بطور مالک نہیں۔ نیلسن اور نیسکول کے بے نامی دار مالک نواز شریف ہیں۔
خواجہ حارث نے سوال اٹھایا کہ واجد ضیاء کے علاوہ کسی گواہ نے لندن فلیٹس کی ملکیت سے متعلق بتایا؟ جس پرتفیسی افسر نے کہا کہ یہ وائٹ کالر کرائم ہے، اس میں ان ڈائریکٹ تفتیش ہوتی ہے۔نیب کے گواہ عمران ڈوگر نے مزید بتایا کہ مریم نواز اور حسین نواز حدیبیہ پیپر ملز کے ڈائریکٹر شیئرز ہولڈر تھے۔ یہ درست ہے کہ کوئین بنچ کے فیصلے میں ایون فیلڈ ہاؤس کا ذکر ہے۔ لندن فلٹیس آف شور کمپنیوں کے ذریعے خریدے گئے تھے۔ ایسی صورت میں لارنس ریڈلے کے خط میں نوازشریف یا مریم نواز کا نام ہونا نہ ہونا بے معنی ہے۔ سپریم کورٹ میں طلال چوہدری کے خلاف توہین عدالت از خود نوٹس کی سماعت بھی آج ہوگی۔
from پاکستان
https://ift.tt/2FIlPgj
0 Comments