دورانِ سماعت لندن سے کورئیر کے ذریعے آیا ہوا سربمہر لفافہ عدالت میں پیش کیا گیا۔
اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ لندن سے آیا کورئیر سربمہر رکھا ہوا ہے، آپ چاہیں تو ابھی کھول سکتےہیں۔
عدالت نے رانا شمیم کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کے کلائنٹ مانتے ہیں کہ اخبار میں جو چھپا ہے وہ ان کے بیان حلفی کےمطابق ہے، عدالت کو تنقید سے گھبراہٹ بالکل نہیں ہے، تین سال بعد ایک بیان حلفی دے کراس کورٹ کی ساکھ پرسوال اٹھایاگیا، آپ کے کلائنٹ نے یہ تاثر دیا ہائیکورٹ کمپرومائزڈ ہے، یہ عام روٹین کا معاملہ نہیں ہے، کیا اس کورٹ کے کسی جج پر کوئی انگلی اٹھائی جاسکتی ہے؟ عدالت صحافی سے اس کا سورس نہیں پوچھے گی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ رانا شمیم نے یہ بھی تاثردیا کہ استحقاقی دستاویز نوٹری پبلک سے لیک ہوا ہوگا، ایسا ہے تو کیا برطانیہ میں ان کےخلاف کوئی کارروائی کی گئی؟
عدالت کا کہنا تھا کہ اظہار رائے کی آزادی مفاد عامہ کےخلاف آجائے تو پھربات مختلف ہوتی ہے، یہ تو نہیں ہوسکتا کہ وہ کوئی بیان حلفی بنالے اورکسی مقصد کے لیے اخبار استعمال ہوجائے، اس عدالت نے ہمیشہ اظہار رائےکی آزادی کی حمایت کی ہے، عدالتوں کا پرابلم یہ ہے کہ ججزپریس کانفرنسز نہیں کرسکتے،پریس ریلیز نہیں دےسکتے۔
عدالت نے رانا شمیم کا بیان حلفی آئندہ سماعت تک سربمہر ہی رکھنے کا فیصلہ کیا اور اسے آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل کی موجودگی میں ہی کھولا جائے گا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ آئین کا آرٹیکل 19 دیکھ کر ہی آگے بڑھیں گے، جہاں بنیادی حقوق کا معاملہ آئے، اظہار رائے کا استثنیٰ ختم ہوجاتا ہے، اس عدالت پر عوام کے اعتبار کو توڑنا عوام کے بنیادی حقوق سے جڑا ہے، ابھی ہم نے فرد جرم عائد کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ نہیں کیا، یہ اوپن انکوائری ہے اور ہم پر سوالات اٹھائے گئے ہیں، ہمیں مطمئن کرپائے کہ توہین عدالت نہیں ہوئی تو کیس ڈسچارج کردیں گے، اخبار میں چھپنا ثانوی ہے،رانا شمیم مانتے ہیں کہ جو چھپا وہی ہے جو اصلی ہے۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت 28 دسمبر تک ملتوی کردی۔
from Urdu News | پاکستان کی خبریں
https://ift.tt/3qbbXFb
0 Comments