اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ 'اپوزیشن کے مطالبے کے بعد کشمیر کے معاملے پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کیا گیا اور اجلاس میں تنقید کے بعد کمیٹیاں قائم ہوئیں، ہمارے کشمیر پہنچنے کے بعد حکومتی نمائندے وہاں پہنچے، اس سے قبل کوئی وفاقی نمائندہ وہاں نہیں پہنچا تھا۔'
انہوں نے دعویٰ کیا کہ 'کشمیری قیادت نے وزیر اعظم عمران خان کو دورے اور وہاں کی قانون ساز اسمبلی میں خطاب کی دعوت دی تھی، وہ دو دن تک انتظار کرتے رہے لیکن وزیر اعظم وہاں گئے ہی نہیں۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'ہم حکومت کی ناکامی، نالائقی اور نااہلی ہر چیز میں برداشت کر سکتے ہیں لیکن کوئی پاکستانی کشمیر پر سودا برداشت نہیں کرے گا، حکومت کو وضاحت کرنی پڑے گی کہ وہ اس معاملے پر کیا کر رہی ہے، وزیر اعظم کو جواب دینا پڑے گا کہ انہوں نے ایک انٹرویو میں کیا اور کیوں کہا تھا اور وہ سب کیوں ہو رہا ہے۔'
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ 'ہر پاکستانی کشمیر کے مسئلے پر متحد ہے، اس وقت جب ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہم سب مل کر انتہا پسند مودی کو بےنقاب کریں اور ہم آواز ہو کر اس کے خلاف بولیں اس وقت (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی سے انتقام لیا جارہا ہے اور جس دن کشمیر کی خبر سب سے بڑی خبر ہونی چاہیے تھی اس دن مریم نواز کی گرفتاری کی خبر سب سے بڑی بن جاتی ہے۔'
انہوں نے کہا کہ 'بزدل حکومت نے آدھی رات کو فریال تالپور کو ہسپتال سے جیل منتقل کیا جو قانون کے خلاف اقدام تھا کیونکہ قانون کے مطابق کسی کو شام 5 بجے کے بعد جیل منتقل نہیں کیا جاسکتا، حکومت کے ایسے اقدامات سے ہمیں یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ وہ کشمیر کے معاملے پر قومی یکجہتی چاہتی ہی نہیں اور حکومت قومی یکجہتی کو سبوتاژ کر رہی ہے۔'
بلاول بھٹو نے دعویٰ کیا کہ 'یہ اتنے چھوٹے لوگ ہیں کہ انہوں نے سابق صدر آصف علی زرداری کو درخواست کے باوجود عید کی نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں دی، سزائے موت کے قیدی کو بھی نماز کی ادائیگی کا حق حاصل ہوتا ہے، یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کی کارروائیاں کرکے یہ ہمیں توڑ سکتے ہیں لیکن شہادتیں دینے والا خاندان کٹھ پتلی حکومت کے ایسے اوچھے ہتھکنڈوں سے نہیں جھکے گا۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'آزاد کشمیر میں مجھ سے یہ سوال پوچھا جارہا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بھارت کے یکطرفہ فیصلے میں آپ کی حکومت اور وزیر اعظم تو شامل نہیں، کیونکہ انہوں نے نہ کوئی ٹھوس پیغام دیا، نہ کوئی اعلان کیا، نہ کوئی حکمت عملی پیش کی اور وقت میں بھی حکومت کی اس قسم کی سیاسی انتقامی کارروائیاں جاری ہیں۔'
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ 'کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی ہر طرح سے آزادی ہے، کسی ایک کاغذ کر دستخط کرکے یا کسی نالائق وزیر اعظم کے غلط فیصلے کی وجہ سے کشمیر کاز کو ہم کبھی نقصان پہنچانے نہیں دیں گے۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'کشمیریوں کے لیے آخری دم تک لڑیں گے، کشمیریوں کے جذبات اور دکھ درد میں شامل ہونا ہوگا، کشمیریوں کی سفارتی جنگ لڑنا ہوگی اور ہم ان کے حق کی خاطر جنگ کے لیے بھی تیار ہیں۔'
انہوں نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے بیان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'ان کے بیان سے ہم سب دلبرداشتہ ہیں، وہ اس سے کیا پیغام دینا چاہ رہے ہیں کہ حکومت کوئی کوشش ہی نہیں کر رہی، آپ کوشش کرنے سے قبل ہی اگر اس طرح کے بیانات دے رہیں تو ہم یہ سوال کرنے پر مجبور ہوں گے کہ آپ کی نیت کیا ہے؟ کیا آپ جان بوجھ کر یہ سب نہیں کر رہے؟'
یاد رہے کہ شاہ محمود قریشی نے گزشتہ روز مظفر آباد میں صدر آزاد کشمیر مسعود خان کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ 'ویسے تو ہم امہ اور اسلام کی بات کرتے ہیں لیکن امہ کے محافظوں نے بھارت میں بہت سرمایہ کاری کی ہوئی ہے، ان کے مفادات ہیں، مسئلہ کشمیر آج کا نہیں ہے بلکہ بہت پرانا ہے لیکن اس پر آج تک کیا ہوا ہے۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'جذبات ابھارنا آسان کام ہے جبکہ اعتراض لگانا اس سے بھی زیادہ لیکن ایک مسئلے کو سمجھ کر آگے لے جانا مشکل کام ہے، سیکیورٹی کونسل کے 5 مستقل رکن میں سے کوئی بھی اس میں رکاوٹ بن سکتا ہے، لہٰذا احمقوں کی جنت میں رہنے کے بجائے پاکستانی عوام کو باخبر رہنا چاہیے، وہاں کوئی منتظر نہیں کھڑا بلکہ اس کے لیے نئی جدوجہد کا آغاز کرنا پڑے گا۔'
from پاکستان
https://ift.tt/2Z0GvKb
0 Comments