ان کا انتخاب ایک بہت بڑے واقعے کی حیثیت اختیار کر گیا اور برطانیہ میں بسنے والی ایشیائی برادری کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی اس کامیابی پر بہت جوش و خروش دیکھنے میں آیا۔
لارڈ میئر بننے کے بعد جب وہ پہلی بار پاکستان آئے تو انھیں ہیڈ آف سٹیٹ کی سطح کا پرٹوکول دیا گیا اور وقت کے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے ایوانِ صدر بلا کر جمہوری کامیابی پر ان کی پذیرائی کی۔ اس وقت کے ملک کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو اور لارڈ مئیر محمد عجیب کی ملاقات کی تصاویر بھی پاکستان بھر میں اخبارات کی زینت بنیں۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ان کے خاندان کی پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے ان کا اس اعلیٰ عہدے پر پہنچ جانا ایک ایک معجزے سے کم نہیں تھا۔
محمد عجیب پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ایک گاؤں شترو میں 1938 میں پیدا ہوئے۔ حال میں میں ایک پاکستانی ٹی وی چینل کے ساتھ ایک انٹرویو میں انھوں نے بتایا کہ ان کے والد ایک غریب مزدور تھے جن کی روزانہ اجرت دو سے تین روپے تھی۔ انھوں نے میرپور کے قریبی قصبے ڈڈیال سے میٹرک تک تعلیم حاصل کی اور ان کے اپنے بقول مزید تعلیم کے لیے وسائل نہ ہونے کے باعث وہ اپنے چچا کے پاس کراچی چلے گئے۔
بعد میں 19 سال کی عمر میں وہ برطانیہ آ گئے اور ناٹنگھم میں سکونت اختیار کی جہاں وہ ایک صابن بنانے والی فیکٹری میں ملازمت کرتے تھے۔ چند ماہ بعد انھوں نے برٹش ریل میں ملازمت اختیار کی اور ٹریڈیونین میں سرگرم ہو گئے۔
ٹریڈ یونین کا یہی سفر انھیں لیبر پارٹی میں لے آیا اور لیبر پارٹی کے ٹکٹ پر ہی وہ بریڈفورڈ کونسل کے رکن منتخب ہوئے۔ وہ نسلی امتیاز کے خلاف کام کرنے والے اداروں میں بھی سرگرم رہے۔
بلدیاتی انتخابات میں کامیابی برطانیہ میں مقیم اکثر پاکستان نژاد سیاسی رہنماؤں کے سیاسی سفر کا پہلا زینہ ثابت ہوئی ہے۔ برطانوی پارلیمان کے ایوانِ بالا ہاؤس آف لارڈز کے رکن لارڈ نذیر احمد نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز 1990 میں رودرم کونسل کے ایک رکن کی حیثیت سے کیا تھا۔
انھیں 1998 میں سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کے دور میں ہاؤس آف لارڈز کا رکن بنایا گیا۔ ہاؤس آف لارڈز کے ایک اور رکن لارڈ قربان حسین کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق وہ 2003 میں لیوٹن بارو کونسل کے رکن منتخب ہوئے اور لبرل ڈیموکریٹک گروپ کے ڈپٹی لیڈر رہے۔ انھیں 2011 میں ہاؤس آف لارڈز کا رکن بنایا گیا۔
2017 میں مانچسٹر سے منتخب ہونے والے رکن پارلیمنٹ محمد افضل اور بیڈفورڈشائر سےاپنی نشست جیتنے والے محمد یاسین پہلے مانچسٹر اور بیڈفورڈ کونسل میں کونسلر بنے۔ کچھ ہی حال دیگر ارکان پارلیمنٹ کا ہے جنھوں نے پہلے بلدیاتی سیاست میں قسمت آزمائی کی اور بعد میں قومی سیاست میں اپنا مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
لیکن محمد عجیب ان کی طرح خوش قسمت ثابت نہ ہو سکے۔ 1990 میں بریڈفورڈ نارتھ سے لیبر پارٹی کے رکن پارلیمنٹ پیٹ وال کینسر سے ایک طویل جنگ کے بعد انتقال کر گئے تو ان کا جانشین ڈھونڈنے کے لیے کوششیں شروع کی گئی۔
اس حلقے سے کثیر تعداد میں ایشیائی ووٹ ہونے کی وجہ سے امید یہی تھی کہ اس مرتبہ کسی ایشیائی کو ہی لیبر پارٹی کا امیدوار بنایا جائے گا۔ محمد عجیب کا نام بھی اس لسٹ میں شامل تھا جس میں سے حتمی امیدوار کو چنا جانا تھا۔ لیکن وہ اس سلیکشن میٹنگ میں ایک ووٹ سے ہار گئے اور یہ فیصلہ کن ووٹ کسی اور کا نہیں انھی کے ایک کشمیری ہم وطن کا تھا۔
اس طرح یہ بات محمد عجیب کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوئی اور ان کی سیاسی اڑان ٹریڈ یونین سے شروع ہو کر کونسلر سے ہوتی ہوئی شاندار انداز میں لارڈ میئر کے عہدے تک پہنچی تھی وہیں ختم ہوئی۔
اگر انھیں اپنے میرپوری بھائی کا فیصلہ کن ووٹ مل جاتا تو لیبر پارٹی کی کی محفوظ سیٹ پر ان کا منتخب ہونا یقینی تھا اور اس طرح وہ پہلے پاکستانی نژاد رکنِ پارلیمان ہوتے۔
from پاکستان
https://ift.tt/2KyZLbD
0 Comments