حکومت کی جانب سے دسمبر 2016 میں سی این جی کی قیمتوں کو ڈی ریگولرائز کردیا گیا تھا، جس کی قیمت اس وقت 67 روپے 50 پیسے فی کلوگرام تھی۔
حکومت کے اس اقدام کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے سی این جی اسٹیشن مالکان ہر تین سے چار ماہ بعد قیمتوں میں من مانا اضافہ کردیتے ہیں اور دسمبر 2016 سے لے کر اب تک فی کلو سی این جی کی قیمت میں 14 روپے تک کا اضافہ کیا جاچکا ہے۔
واضح رہے کہ دسمبر 2016 میں پیٹرول کی قیمت بھی 66 روپے 27 پیسے تھی جو اب بڑھ کر 87 روپے 70 پیسے ہوچکی ہے۔
اس سلسلے میں سی این جی فورم کے چیئرمین شبیر سلیمان جی نے ایک مرتبہ پھر قیمتوں میں اضافے کی وجہ سوئی سدرن گیس کمپنی کی جانب سے بلوں میں بے تحاشا اضافے کو قرار دیا، ان کا کہنا تھا کہ پیٹرول کی قیمتوں میں ہونے والے مسلسل اضافے کے بعد سی این جی اور پیٹرول کی قیمتوں کا فرق 35 فیصد سے بڑھ کر 39 فیصد ہوگیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کم قیمت میں زیادہ مسافت طے ہونے کے سبب ٹرانسپورٹرز اور عام مسافروں میں سی این جی کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے، اس کے ساتھ ہی انہوں نے سوئی سدرن گیس کمپنی پر زور دیا کہ وہ ہفتے میں سات دن گیس کی فراہمی کو یقینی بنائے کیوں کہ محدود آمدن والے افراد پیٹرول کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے۔
انہوں نے کہا کہ سی این جی کے استعمال سے تجارتی خسارے کو کم کرنے میں مدد ملے گی جب کہ ادائیگیوں میں توازن بھی برقرار رہے گا۔
واضح رہے کہ سندھ میں ہر روز 8 کروڑ کیوبک فٹ سی این جی خرچ کی جاتی ہے جو خیبر پختونخوا میں 6 کروڑ 50 لاکھ کیوبک فٹ روزانہ ہے، جبکہ پنجاب میں ری لیکویفائیڈ نیچرل گیس (آر ایل این جی) کا استعمال کیا جاتا ہے جس کی کھپت 6 کروڑ کیوبک فٹ روزانہ ہے۔
2017-18 کے اکنامک سروے کے مطابق حکومت نے شروع سے ہی آٹو موبائل میں متبادل ایندھن کے طور پر سی این جی کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی تا کہ ماحولیاتی آلودگی میں کمی واقع ہوسکے اور تیل درآمد کرنے میں خرچ ہونے والے زرمبادلہ کو کم کیا جاسکے مزید یہ کہ اس سے ملازمتوں میں اضافہ ہو۔
خیال رہے کہ سرمایہ کار دوست اقدامات کرنے کے سبب پاکستان دنیا بھر میں سی این جی استعمال کرنے والے ممالک میں اول نمبر پر ہے۔
from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں https://ift.tt/2rltq05
https://ift.tt/2w9hhAd
0 Comments