از خود نوٹس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ اس بات کا تعین کرے گی کہ آئین کے تحت مختلف حالات میں کسی صوبائی اسمبلی کے تحلیل ہونے کے بعد انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کی آئینی ذمہ داری اور اختیار کس کے پاس ہے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
سپریم کورٹ کے بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔
دوران سماعت سابق اسپیکرز کے وکیل بیرسٹر علی ظفر، جے یو آئی کے وکیل کامران مرتضیٰ، پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک، نیئر بخاری، فرحت اللہ بابر، مسلم لیگ (ن) کے وکیل منصور اعوان، گورنر پنجاب کے وکیل مصطفیٰ رمدے، وائس چیئرمین پاکستان بار، صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری، صدر اسلام آباد ہائی کورٹ بار شعیب شاہین، اٹارنی جنرل شہزاد عطا الہیٰ، ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن، پی ٹی آئی رہنما عامر محمود کیانی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
سماعت کے آغاز پر مسلم لیگ (ن) کے وکیل منصور اعوان نے مؤقف اپنایا کہ حکم کی کاپی ابھی تک دستیاب نہیں ہوئی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آج اکٹھے ہونے کا مقصد تھا سب کو علم ہوجائے، مختلف فریقین کے وکلا کو عدالت میں دیکھ کر خوشی ہوئی۔
معاملے پر فل کورٹ بینچ تشکیل دیا جائے، فاروق نائیک کی استدعا
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہمیں کوئی نوٹس تو نہیں ملا، درخواست ہے سب کو نوٹس جاری کیے جائیں، بینچ کی تشکیل پر ہمیں 2 ججز پر اعتراض ہے، دونوں ججز کو بینچ میں نہیں بیٹھنا چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آج پہلے سب کی حاضری لگائیں گے، پیر کو سب کو سنیں گے، چار صوبائی وکلا کی نمائندگی عدالت میں موجود ہے۔
دوران سماعت جے یو آئی (ف)، مسلم لیگ (ن)، پاکستان بار کونسل کی جانب سے 2 ججز پر اعتراض کیا گیا، اس موقع پر فاروق ایچ نائیک نے مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ف) کا مشترکہ بیان عدالت میں پڑھا، بیان میں کہا گیا کہ دونوں ججز مسلم لیگ (ن) اور جے یوآئی (ف) کے کسی بھی مقدمے کی سماعت نہ کریں۔
دوران سماعت پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ نہایت احترام سے ججز کے بینچ میں شامل ہونے پر اعتراض کر رہا ہوں ، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی کے بینچ میں شامل ہونے پر اعتراض ہے ،اعتراض کرنے کا فیصلہ ہمارے قائدین نے کیا ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ جسٹس جمال مندوخیل کے نوٹ کے بعد جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی اپنے آپ کو بینچ سےالگ کردیں۔
فارق ایچ نائیک نے کہا کہ میں مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی، جے یو آئی کا متفقہ بیان پڑھ رہا ہوں، تینوں سیاسی جماعتیں احترام سے کہتی ہیں کہ دو رکنی بینچ کا ازخود نوٹس کا حکم سامنے ہے، جسٹس جمال مندوخیل کا عدالت میں پڑھا گیا بیان بھی ہے، انصاف کی فراہمی اور فئیر ٹرائل کے تناظر میں دونوں ججز صاحبان کو بینچ میں نہیں بیٹھنا چاہیے۔
اس موقع جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ معاملہ 184/3 سے متعلق سمجھتا ہوں، کیوں نہ یہ معاملہ فل کورٹ میں سنا جائے، فاروق نائیک نے کہا کہ اس وقت میں اس کی گہرائی میں نہیں جاؤں گا، میرا بھی یہی خیال ہے کہ معاملہ فل کورٹ میں سنا جائے۔
چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ ہم پہلے کیس میں اس کے قابل سماعت ہونے پر بات کر یں گے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا یہ مناسب نہیں ہوگا کہ معاملہ فل کورٹ سنے، فاروق ناٸیک نے کہا کہ چیف جسٹس سے درخواست کرتا ہوکہ اس معاملے پر فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔
فاروق نائیک نے مشترکہ بیان کا متعلقہ پیراگراف پڑھتے ہوئے کہا کہ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی نے سوموٹو کا نوٹ لکھا، گزشتہ روز جسٹس جمال مندوخیل نے ایک نوٹ لکھا، جسٹس مندوخیل کا نوٹ انتہائی تشویشناک ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ کے پاس وہ نوٹ ہے، یہ نوٹ تو تحریری حکمنامہ کا حصہ ہے جس پر ابھی دستخط نہیں ہوئے، وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ یہ ازخود نوٹس 2 ممبر بینچ کی سفارش پر لیا گیا، سوال یہ ہے کیا ایسے ازخود نوٹس لیا جاسکتا ہے، واضح کرتا ہوں کہ کوئی ذاتی وجوہات نہیں ہیں۔
دوران سماعت عوامی مسلم لیگ کے سبربراہ شیخ رشید کے وکیل اظہر صدیق ویڈیو لنک پر پیش ہوئے، انہوں نے مؤقف اپنایا کہ عدلیہ کے خلاف جو زبان استعمال کی جارہی ہے، اس پر نوٹس لیاجائے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ سیاسی معاملات کو پارلیمنٹ میں حل ہونا چاہیے، اپنی جماعتوں سے کہیں کہ یہ معاملہ عدالت کیوں سنے جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اپنی جماعت سے اس معاملے پر ہدایت لوں گا۔
دوران سماعت شیخ رشید کے وکیل نے مریم نواز کے جلسے کا نام لیے بغیر تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ جلسے میں اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کے خلاف تضحیک آمیز گفتگو کی گئی، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس معاملے کو بعد میں دیکھیں گے۔
اس موقع پر وکیل پیپلز پارٹی نے کہا کہ میری استدعا ہے کہ سپریم کورٹ پہلے پی ڈی ایم کی جانب سے بینچ پر اٹھائے گئے اعتراض کو سنے، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عام طور پر شہری عدالت کی دہلیز پر دستک دیتے ہیں، آج ہماری دہلیز پر آئین پاکستان نے دستک دی ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جس سوال پر ازخود نوٹس لیا گیا یہ سیاسی معاملہ ہے، پارلیمنٹ لے کر جائیں، جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ نہیں سمجھتے اس معاملے کو تمام ججز پر مشتمل فل کورٹ بینچ کو سنا جانا چاہیے، عدالت نے کہا پیر کے دن فل کورٹ بینچ بنانے یا نہ بنانے کے سوال پر سماعت ہوگی، پیر کے دن 2 ججز پر اٹھائے گئے اعتراض کو بھی سنیں گے۔
اس موقع پر عدالت عظمیٰ نے از خود نوٹس کیس کی مزید سماعت پیر ساڑھے گیارہ بجے تک کے لیے ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ میں از خود نوٹس کی سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ کے اس سوال کو بھی کارروائی کا حصہ بنا لیا گیا کہ کیا دونوں اسمبلیاں آئین کے مطابق تحلیل کی گئیں جب کہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا تھا کہ از خود نوٹس پر میرے تحفظات ہیں۔
سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے صدر پاکستان، حکومت پاکستان، الیکشن کمشن پاکستان، گورنر پنجاب، گورنر خیبر پختونخوا، چیف سیکریٹری، پاکستان بار کونسل، صدر سپریم کورٹ بار سمیت چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز ، اٹارنی جنرل پاکستان، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کو نوٹس جاری کیے تھے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے یہ از خود نوٹس ایسے وقت میں لیا گیا جب صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پیر کے روز یکطرفہ طور پر پنجاب اور خیبر پختون خوا میں 9 اپریل کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا تھا جس کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے اس معاملے پر مشاورت کے لیے ان کی دعوت کو مسترد کر دیا گیا تھا۔
from Urdu News | پاکستان کی خبریں
https://ift.tt/IJT8WBU
0 Comments