عالمی رپورٹ برائے غذائیت کے مطابق دنیا بھر میں کم غذائیت کا شکار صرف خوراک کی کمی کا سامنا کرنے والے افراد ہی نہیں بلکہ وہ بھی ہیں، جن کے پاس غذا تو وافر مقدار میں موجود ہے، مگر وہ ان کے لیے نادرست ہے۔
آزادانہ طور پر مرتب کردہ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افریقہ غذائیت کی کمی کے حامل خطوں میں سب سے آگے ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خوراک کے صحت پر اثرات فضائی آلودگی حتیٰ کہ تمباکو نوشی سے بھی زیادہ ہیں۔ یہ رپورٹ جمعرات 29 نومبر کو تھائی لینڈ کے دارالحکومت بنکاک میں عالمی فوڈ کانفرنس میں پیش کی گئی۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غذا میں غذائیت کی کمی کی وجہ سے عالمی برادری کو ساڑھے تین ٹریلین ڈالرز سالانہ کا بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق موٹاپے اور زیادہ وزن کی وجہ سے یہ بوجھ پانچ سو ارب کے برابر ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بچوں کی اموات میں قریب 45 فیصد کی ذمہ داری خوراک میں غذائیت کی کمی سے جڑی ہے جب کہ پانچ برس سے کم عمر کے قریب سولہ ملین بچے غذا کی شدید قلت کا شکار ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ موٹاپا یا زیادہ وزن تمام اموات میں قریب سات فیصد کا ذمہ دار ہے۔
اس رپورٹ کی مصنفہ اور امریکا کے جونز ہاپکنز یونیورسٹی کی پروفیسر جیسیکا فرانزو کا کہنا ہے، ’’ہم جو کھا رہے ہیں، وہی ہمیں ہلاک کر رہا ہے۔ اس لیے خوراک کے نظام میں واضح اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ یہ معاملہ دوبارہ پٹری پر آ سکے۔‘‘
اس رپورٹ میں انسانی خوراک میں غذائیت کی کسی بھی طرح کی کمی کو مسئلہ اور انسانی صحت پر منفی اثرات کا موجب قرار دیتے ہوئے اسے ’انسانوں کے لیے ناقابل قبول نتائج‘ کا حامل قرار دیا گیا ہے۔
from صحت https://ift.tt/2rm9l9H
https://ift.tt/2RqK21h
0 Comments